ریا-سر سید احمد خان
مختصر ترین =مع جوابات
سوال1- سرسید کی پیدائش کب ہوئی ؟
جواب : سرسید کی پیدائش ۱۸۱۷ ء میں ہوئی ۔
سوال2- سرسید کی والدہ کا نام کیا تھا ؟
جواب : سرسید کی والدہ کا نام عزیز النساء بیگم تھا ۔
سوال3- سرسید کا کون سا مضمون آپ کے نصاب میں شامل ہے ۔
جواب : سرسید کا مضمون ‘ریا’ ہمارے نصاب میں شامل ہے ۔
سوال 4- سرسید کی وفات کب ہوئی ؟
جواب : سرسید کی وفات ۱۸۹۸ ء میں ہوئی ۔
مختصر سوالات مع جوابات
سوال1- سر سید کی زندگی کے بارے میں پانچ جملے لکھئے ۔
جواب : سرسید احمد خان کی پیدائش۱۸۱۷ ء کو دہلی میں ہوئی ۔ ان کے والد کا نام میرمتقی تھا اور ان کی والدہ عزیز النساء بیگم بھی بہت ذی شعور خاتون تھیں ۔ سرسید کے مورث شاہ جہاں کے زمانے میں ہندوستان آئے اور مغلیہ حکومت کے بڑے عہدوں پر فائز ہوۓ ۔ ان کا خاندان علمی اور مذہبی تھے ۔ سرسید کی تعلیم وتربیت میں ان کی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد سرسید نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی- ملازمت سے کامیابی کے ساتھ سبکدوشی کے بعد سرسید نے علی گڑھ میں قوم کی تعلیم کے لئے ایم اے او کالج کھولا جوآ گے چل کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہوا ۔ سرسید نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ اور تادم آخر قوم کی علمی وادبی خدمت میں مصروف رہے ۔
سوال2-مضمون کے بارے میں پانچ جملے لکھئے ۔
جواب : زیر نصاب مضمون ‘ریا’ سرسید احمد خان کا ایک اصلاحی مضمون ہے ۔ اس مضمون میں سرسید نے ریا کی نحوست اور خرابیوں کو بیان کیا ہے ۔ ریا ایک طرح کا اخلاقی عیب ہے جس کا آج کے لوگ یوں تجزیہ کرتے ہیں کہ دل میں بات کچھ ہواور ظا ہر کچھ اور کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریا کا عیب صرف اسی حد تک محدود نہیں رہتا ۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سمجھنے والا خودمغالطے میں رہتا ہے اور اسے یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ ریا کاری کر رہا ہے ۔ ریا کاری کا تعلق صرف ظاہری عمل اور ردعمل سے نہیں ہے – بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی کسی شبہے یا غلط فہمی کی وجہ سے ایسے اقدامات کرتا ہے جس کے کرنے پر خود اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ صحیح کر رہا ہے یا غلط – دراصل اسی داخلی پیچید گی کا نام ریا ہے –
طویل سوالات مع جوابات
سوال 1- سرسید کی ادبی خدمات پر ایک مضمون لکھئے ۔
جواب: جدیدار دو نثر کے فروغ میں سرسید کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اگریہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ اگر مولوی عبد الحق باباۓ اردو تھے تو سرسید احمد خان باباۓ اردونثر تھے ۔
تحصیل علم سے فراغت کے ۱۸۶۲ ء میں سر سید نے غازی پور میں انجمن سا ئنٹفک سوسائٹی قائم کیا پھر یوروپی طرزتعلیم کے جائزہ کے لئے لندن تشریف لے گئے اور وہاں سے واپسی پر رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا ۔ پھر 1875ء میں’ مدرسۃ العلوم’ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ علی گڑھ میں قائم کیا جو ترقی کر کے ایم اے اور کالج علی گڑھ ہو گیا ۔ پھر سرسید کی وفات کے بعد ترقی کرتے ہوۓ 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا ۔
سرسید نے اپنے تعلیمی اور اصلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی خصوصی دلچسپی لی اور کئی یادگار کتابیں لکھیں جن میں” آثار الصنادید”،”خطبات احمدیہ”اور” اسباب بغاوت ہند”وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے کئی اہم تاریخی کتابوں کو بھی ترتیب دیا ۔ اور رسالہ” تہذیب الاخلاق “میں کثیر تعداد میں اصلاحی مضامین لکھے ۔
سرسید اوران کے رفقائے کار نے اردونثر میں سادہ بیانی اور مختصر نویسی کو رواج دیا اور ارد ونثر کونئی بلندیاں عطا کیں ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سرسید کی ادبی خدمات ہمہ جہت ہیں ۔اردو کی نئی علمی نثر کی بنیاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ سرسید نے اردو میں مختصر مضمون نگاری کو فروغ دیا۔لمبی اور طویل تحریروں کی بجاۓ چند صفحات میں کام کی باتیں کہنے کا فن سرسید نے عام کیا ۔ سرسید کی نثر میں وہی وزن اور وقار ہے جو ان کی شخصیت میں تھا ۔ ان کے رسالہ تہذیب الاخلاق میں اسی طرح کے علمی مضامین شائع ہوتے تھے جس کا تعلق عموماًسماج ،تہذیب اور ادب سے ہوتا تھا سرسید نے اپنے وطن اور اپناۓ وطن خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بڑی قربانیاں دیں -مسلمانوں کو غدر کے صدمے کو بھلا کر جدید تعلیم کی جانب راغب کیا -وہ ایک بڑے مصلح اور بڑے ادیب کی حیثیت سے ہمیشہ یادر کھے جائیں گے
سوال 2- زیر نصاب مضمون ریا کا مرکزی خیال پیش کیجئے ؟
جواب : زیر نصاب مضمون “ریا ” سر سید احمد خان کا ایک اصلاحی نوعیت کا مضمون ہے – اس مضمون میں سرسید نے ریا کی حقیقت اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ چنانچہ ریا کے صحیح مفہوم کی وضاحت کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ ریا کا تعلق کسی شخص کے ظاہری عمل اور ردعمل سے نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر داخلی سطح پر جو شبہات ، غلط فہمیاں اور خودفریبیاں ہوتی ہیں در اصل اسی داخلی اورذہنی پیچیدگی کا نام دیا ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی دوست بیجا تعریف کر کے شخصیت کے اندر ریا کاری کا بیج بو دیتا ہے اور کبھی دشمن کسی شخص کی خوبیوں کو عیب بتا کر اسے ایک ذہنی تناؤ میں گرفتار کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پورے اعتماداور یقین کے ساتھ اچھائیوں کو انجام نہیں دے پاتا ہے کسی کی شخصیت میں ریا کے داخل ہونے کی وجہ سے اس کا سار اعمل بے مقصد ہو جا تا ہے اور اس کے نزدیک نیک و بد کی تمیز بھی ختم ہو جاتی ہے ۔
اس نفسیاتی کشمکش کے موقع پراگرغور کیا جائے تو انسان کے دشمن دوست کے مقابلے میں کم نقصاندہ ہوتے ہیں یہ سچ ہے کہ دشمن عیب جوئی کرتا ہے لیکن دوست تو شد ید مغالطے میں ڈال دیتا ہے ۔ وہ اپنی جھوٹی محبت یا دکھاوے کی وجہ سے ہمارے ایسے اعمال کی تعریف کرتا ہے جو حقیقت میں تعریف کے لائق نہیں ہوتے ۔ سرسید احمد خان نے اس نفسیاتی کشمکش سے بچنے اور دوست و دشمن کے الگ ہتھیاروں سے محفوظ رہنے کے لئے کچھ ایسے اصول وضع کئے ہیں جن پرعمل کر کے ہم وہ اطمینان حاصل کر سکتے ہیں جن سے ہماری شخصیت کی تکمیل ہوسکتی ہے ۔ انسانی دل و دماغ میں بہت سے جذ بے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیں عدل و انصاف برتنے کا موقع نہیں دیتے ۔تعصب حد سے بڑھی ہوئی سرگرمیاں اپنے اچھے کاموں کے اظہار کی بڑھی ہوئی لگن ہمارے اندر خفیہ طور پر ریا کاری کے اجزا پیدا کردیتی ہے ۔ اس طرح ہم جانے اور انجانے میں ریا کاری کے شکار ہو جاتے ہیں ۔